اہم خٻراں

منگل، 22 ستمبر، 2020

شہیداں نوں سلام - جنگ آزادی 1857ء دے عظیم مجاہد تے پنجابی قوم دے ہیرو "رائے احمد خان کھرل شہید"

 

 


پنجابی قوم دے شہیداں نوں سلام

 

ء1857 کی جنگ آزادی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے اور اس میں پنجابی قوم کے ہیرو رائے احمد خان کھرل شہید کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود انہوں نے انگریز سامراج کی پالیسیوں سے 81 سال کی عمر میاں بغاوت کی۔

 

 جھامرہ ضلع فیصل آباد میں 1776 کو رائے نتھو خان کے گھر پیدا ہونےوالے پنجابی شیر رائے احمد خان کھرل نے انگریزی سامراج کی پالیسیوں کو للکارا اور ماننے سے انکار کردیا۔


ملک کے مایہ ناز مصنف خالد مسعود خان مجموعہ مقالات ملتان میں لکھتے ہیں، جو کہ ایک باذوق اور ادب سے محبت رکھنے والے جناب زاہد سلیم گوندل ڈی سی او ملتان نے اپنی تعیناتی کے دوران تحریر کی تھی۔ اس میں جناب خالد مسعود خان 1857 کی جنگ آزادی میں پنجاب کے صاحب حیثیت خاندانوں کے کردار کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”شجاع آباد اور جلال پور پیروالہ کی جانب جانیوالے پنجابی قوم کے غیرتمند حریت پسندوں کو جلال پور پیروالہ کے گدی نشین نے اپنے مریدوں سے مل کر گھیر لیا اور انکے ساتھ وہی سلوک کیا جو شیرشاہ کے گدی نشین نے کیا تھا۔ دریائے چناب اور ستلج کے سنگم پر لڑائی ہوئی‘ کچھ حریت پسند ڈوب گئے بقیہ کو جلال پور پیروالہ کے گدی نشین نے اپنے مریدوں کی مدد سے مار ڈالا۔ حریت پسندوں کا ایک گروہ غوث پور اور تلمبہ کی جانب نکل گیا اس گروہ کا جاگیردار حیات شاہ اور پیرمراد شاہ کے لوگوں نے صفایا کردیا۔ 


دوسرا گروہ سرائے سدھو کی جانب گیا۔ اسے جاگیردار بہاول لنگڑیال نے روکنے کی کوشش کی مگر مارا گیا۔ اس گروہ کو مہر سلطان ہراج اور ہوت سرگانہ نے روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ صورتحال کو خراب دیکھ کر حویلی کورنگا کے مخدوم اور قتال پور کے مخدوم اپنے مریدوں سمیت مدد کو آن پہنچے۔ پنجابی قوم کے دلیر حریت پسندوں نے جم کر مقابلہ کیا اور انگریزوں کے حواریوں اور ٹوڈیوں کو شکست دینے کے قریب تھے کہ نواب مصطفی خان خاکوانی تازہ دم دستہ لے کر پہنچ گئے۔ مجاہدین کی کثیر تعداد میدان جنگ میں شہید ہوئی بقیہ کو مخدوم آف قتال پور کے کارندوں نے پکڑ کر دریائے راوی کے کنارے قتل کیا اور لاشیں دریا میں پھینکوا دیں۔ ملتان میں حضرت بہاءالدین ذکریا کے گدی نشین 1857 کی جنگ آزادی کچلنے کیلئے خود پچیس سواروں کے ہمرہ کرنل ہملٹن کی سربراہی میں مجاہدین سے برسر پیکار رہے۔ انہیں تین ہزار روپے انعام عطا کیا گیا۔ بعدازاں خدمات کے عوض گدی نشین مخدوموں کو مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے سالانہ کی جاگیر عطا کی گئی۔


پنجاب کے دیہاتوں میں حریت پسندوں کی بہادری کے قصے پہنچے تو پنجابی قوم کے اور لوگ بھی اس جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ احمد خان کھرل‘ موکھا وہنی وال‘ نادر شاہ‘ مہر مراد فتیانہ اور لال خان بلوچ وغیرہ وہ چند مقامی سردار تھے جو اس جدوجہد میں نمایاں تھے۔ پنجابی قوم کے خاندانوں میں وہنی وال‘ کاٹھیے‘ جوئیے‘ لک‘ وٹو‘ بگھیلے‘ فتیانے اور کھرل پیش پیش تھے۔


اسی اثناءمیں لارڈ لارنس نے ایک مراسلہ جاری کیا کہ ہر مفرور سپاہی کو قتل کرنے یا گرفتار کروانے کے عوض ایک مربع اراضی یا بیس روپے نقد انعام دیا جائیگا۔ اس اعلان نے علاقے کے جاگیرداروں اور مخدوموں میں ایک نئی روح پھونک دی اور انہوں نے اپنے مریدوں مخبروں اور حواریوں کے ذریعے مجاہدین پر زمین تنگ کردی۔ جھامرہ میں مزاحمت کاروں کا سب سے بڑا لیڈر احمد خان کھرل مورچہ بند تھا۔ اس لڑائی میں احمد خان کھرل اور نادر شاہ شہید ہوگئے۔ بعدازاں موکھا وہنی وال اور لال خان بلوچ گرفتار ہوئے اور بہ عبور دریائے شور یعنی کالے پانی بھجوا دیئے گئے۔ مقامی مخدوموں اور جاگیرداروں کی مخبری پر حریت پسندوں اور انکے حمایتیوں کیخلاف انتقامی کارروائیوں کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ احمد خان کھرل کی ساری جائیداد بحق سرکار انگلش ضبط کرلی گئی۔ اسکی گوگیرہ میں ضبط شدہ حویلی میں آج بھی گورنمنٹ ہائی سکول گوگیرہ قائم ہے۔


فی حریت پسند بیس روپے یا ایک مربع اراضی حاصل کرنیوالے ”عزت دار“ تب بھی دربار سرکار میں پہلی قطار کی کرسی پر بیٹھنے کی سند رکھتے تھے اور آج بھی ایوان اقتدار میں برا جمان ہیں۔ مجھے تاریخ کی آگاہی نے خوشی سے زیادہ ملال دیا ہے، کاش میں نے یہ تاریخ نہ پڑھی ہوتی۔ میں اس ڈیڑھ سو سالہ پرانی حقیقت سے مکمل آشنا نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ ایک آزادی کے متوالے کی برسی خاموشی سے گزر گئی‘ حکومتی سطح پر اور نہ سماجی سطح پر ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کوئی سیمینار یا تقریب منعقد نہیں کی گئی۔ افسوس


تحریر محمد رفیع رضا کھرل

1 تبصرہ: