اہم خٻراں

منگل، 15 ستمبر، 2020

افغانستان، سلطنتوں کا قبرستان یا ہر طاقت کا غلام ؟؟؟

 


افغانستان، سلطنتوں کا قبرستان یا ہر طاقت کا غلام ؟؟؟

آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ افغانستان کو کوئی فتح نہیں کر سکا اور وہ سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔ جس نے بھی اس پرحملہ کیا وہ نیست و نابود ہو گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ آئیے تاریخ کے اوراق کھولتے ہیں اور جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔


تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت ایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی تھی۔ ڈھائی ہزار سال پہلے وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا، یعنی شاہوں کا شاہ۔ آپ اس کی سلطنت کا نقشہ دیکھیں۔ موجودہ افغانستان سائرس کی ہنجامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یعنی موجودہ افغانستانی علاقے ایرانی سلطنت کے مفتوحہ غلام تھے۔


آئیے اس کے بعد مقدونیہ کے سکندر کی سلطنت کو دیکھتے ہیں۔ اس میں بھی آپ کو افغانستان ڈھونڈنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ سکندر اور اس کے بعد اس کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان کو غلام بنائے رکھا۔


اس کے بعد پیش ہے چندر گپت موریہ اور اس کے جانشینوں کی سلطنت کا نقشہ۔ آپ دوبارہ دیکھیں گے کہ موجودہ افغانستان، پنجاب اور پاٹلی پتر کے موریہ بادشاہوں کا ایک مفتوحہ علاقہ تھا۔


چند سو سال بعد کی اگلی بڑی سلطنت کو دیکھتے ہیں۔ ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض دکھائی دیتے ہیں۔


پھر دین محمدیۖ کا ظہور ہوتا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں ہی خراسان فتح ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اموی حکومت قائم ہوتی ہے۔ آپ اموی حکومت کا نقشہ دیکھیں، افغانستان اس میں بھی ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔


امویوں کا زوال ہوا۔ عباسی بھی طاقت کھو بیٹھے۔ سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ اب افغانستان پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ یہ پھر ایک مفتوحہ علاقہ ہے۔


چند مشہور بڑی سلطنتوں کے ذکر کے بعد آئیے؛ اب آپ کو ان چند مشہور فاتحین کا تعارف کرواتے ہیں، جنھوں نے افغانستان فاتح کیا:


سائرس (کوروش) پہلا فاتح تھا۔

سائرس نے 550 قبل از مسیح افغانستان فتح کیا تھا، اور وہ ایران سے آیا تھا۔

 

سکندر یونانی دوسرا فاتح تھا۔ 

سکندر یونانی نے تقریباً 330 قبل از مسیح افغانستان فتح کیا اور یہاں سے سائرس حکومت کا خاتمہ کیا۔ سکندر یونان سے آیا تھا۔

 

سکندر یونانی کی موت کے بعد اس کے جنرل سیلیکس نے افغانستان پر قبضہ جما لیا۔  سیلیکس بھی یونانی تھا۔

 

ڈیوڈوٹس ون نے 250 قبل از مسیح میں سیلیکس کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کیا۔ ڈیوڈوٹس بھی یونان سے آیا تھا۔ 


اس کی حکومت کا خاتمہ یوژری قبائل نے کیا۔ جنہوں نے یونانیون کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کیا۔ یوژری نامی یہ فاتحین چین سے آئے تھے۔ یہ 130 قبل از مسیح کی بات ہے۔ 


اس کے بعد دوبارہ کچھ ایران سے افغان فاتحین آئے، لیکن وہ سب نئے عظیم فاتح چندر گپت موریا سے شکست کھا گئے، جس نے سب کو شکست دے کر افغانستان کو فتح کر لیا تھا۔ چند گپت موریا پنجاب سے آیا تھا۔


گوتمی پترا سکرنی نے بھی افغانستان فاتح کیا۔ وہ موجودہ انڈیا دکن سے آیا تھا، اور افغانستان پر کچھ عرصہ کے لیے حکومت کی۔ یہ تقریباً 100 سال بعد از مسیح کا دور تھا۔


اس کے بعد گند فر نے افٖغانستان فتح کیا۔ اس کا تعلق ایران سے تھا۔ یہ بھی 100 سال بعد از مسیح کا دور تھا۔


اس کے بعد کوجولو کادی فیسس نے افغانستان فاتح کیا اور افغانستان فتح کر کے یہاں پر کوشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ فتح نسلاً چینی تھا۔ 


افغانستان پر قابض کوشان سلطنت کا خاتمہ شاہ پور اول نے کیا۔ شاہ پور اول ایران سے آیا تھا جس نے یہاں افغانستان میں ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ کئی مورخین کے نزدیک شاہ پور اؤل ہی وہ بادشاہ ہے جس کے دور میں پہلی بار اس خطے کے رہنے والوں کے لیے لفظ "ابگان" استعمال ہوا۔ یہ سن 270ء کا دور تھا۔ 


ساسانی سلطنت کا خاتمہ وسطی ایشیا سے آکر افغانستان فتح کرنے والے ہونا قبائل کے ہاتھوں ہوا۔

 

کئی سو سال تک افغانستان ایرانی، ہندؤوستانی اور وسطی ایشیائی فاتحین کے درمیان سینڈوچ بنا رہا۔ کہ سن 500ء میں اسلام کا ظہور ہوا۔ عربوں نے ایران فتح کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کئی علاقون کو فتح کر لیا۔ وہ صحابہ یا تابعین کا دور تھا 

مسلمان عرب فاتحین نے افغانستان میں ہندو شاہی نامی حکومت کا خاتمہ کیا، جو ہندؤوں کی حکومت تھی اور وہ انڈیا سے آئے تھے۔


عربوں کا افغانستان پر کنٹرول ختم کرنے اور افغانستان میں خود مختار ریاست بنانے کا کارنامہ مشہور فاتح سبکتگین کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ سبکتین ترک تھا۔ یہ 970ء کا دور تھا۔


محمود غزنوی نامی فاتح کو کون نہیں جانتا۔ محمود غزنوی سبکتگین کا بیٹا تھا اور نسلاً ترک تھا۔


محمود غزنوی کی سلطنت کا خاتمہ ایک دوسرے فاتح شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہوا جو نسلاً تاجک تھے، اور خود کو شنسبانی کہتے تھے۔ یہ 1200ء کا دور تھا۔ 


اس کے بعد افغانستان چینگیز خان کے ہاتھوں فتح ہوا۔ جس نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی۔ چینگیز خان منگول تھا۔ یہ 1220ء کا دور تھا۔ 

 

عظیم حکمران جلال الدین خلجی اور علاؤالدین خلجی نے بھی افغانستان کے کچھ حصوں کو کچھ عرصہ کے لیے فتح کیا۔ خلجی نسلاً ترک تھے اور ان کا پایہ تخت دہلی تھا۔


منگولوں کے بعد افغانستان مشہور فاتح تیمور لنگ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ تیمور وسطی ایشیاء سے آیا تھا اور نسلاً ترک منگول تھا۔


افغانستان 1540ء میں بابر کے ہاتھوں دوبارہ فتح ہوا۔ بابر بھی تیمور کی ہی نسل سے تھا۔ تیمور اور بابر دونوں ازبکستان سے آئے تھے۔


اس کے بعد 1730ء میں نادر شاہ افشار نے افغانستان پر دھاوا بولا اور ایران کے خلاف بغاوت کرنے والی ہوتکیوں کا قلع قمع کیا۔ نادر شاہ ایران سے آئے تھا۔


نادر شاہ افشار کے قتل ہونے کے بعد افغانستان نامی ملک پہلی مرتبہ وجود میں آیا جب نادر شاہ افشار کی فوج کے ایک کمانڈر احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعوی کر دیا۔ احمد شاہ ابدالی نسلاً پشتون تھے۔ اس سے پہلے کابل اور قندھار عام طور پر ہندوستانی تخت کا حصہ رہتے تھے، ہرات وغیرہ ایرانی سلطنتوں کا اور مزار شریف وغیرہ کے علاقے وسطی ایشیائی سلطنتوں وغیرہ کے صوبے ہوا کرتے تھے۔


برطانیہ نے بھی 1880ء میں افغان حکمرانوں کو شکست دے کر ان کو اپنا وظیفہ خوار بنایا۔


پہلی اینگلو افغانی جنگ میں کابل میں موجود برطانوی گیریژن نے امن معاہدہ کیا۔ واپسی پر اس پر حملہ کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ سمجھا گیا کہ صرف ایک سپاہی ڈاکٹر ولیم برائیڈن ہی پندرہ ہزار افراد میں سے زندہ بچ سکا ہے۔ اس پر لیڈی بٹلر نے ایک مشہور پینٹنگ بنائی۔ اس جنگ کے بعد افغانستان کی سلطنتوں کا قبرستان ہونے کی غلط فہمی پھیل گئی۔


1878ء سے 1880ء تک ہونے والی دوسری اینگلو افغانی جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی۔ پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا گیا کہ اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں اور ہر حصے پر الگ حکمران بنا دیا جائے۔ مگر پھر امیر عبدالرحمان کو حکمران بنا دیا گیا۔


معاہدے کے تحت افغانستان کے امور خارجہ برطانیہ کے حوالے کر دیے گئے۔ بدلے میں برطانیہ نے کسی غیر ملکی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی۔ افغانستان کو صرف ایک چیز نے بچایا۔ اور وہ یہ تھی کہ انگریز اپنی ہندوستانی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان ایک بفر ریاست رکھنا چاہتے تھے۔


تو یہ تھی افغانستان پر غیر ملکی قبضوں کی ایک مختصر تاریخ۔ اب اگر آپ کسی کو یہ دعوی کرتے ہوئے سنیں کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے اور اس پر کوئی قبضہ نہیں کر سکا ہے، تو اسے یاد دلا دیں کہ جس بڑی طاقت نے بھی اس پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرنی چاہی ہے، وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔


جو لوگ اس مغالطے کی تشہیر کر کر کے مختلف عالمی طاقتوں کو افغانستان میں لا لا کر لاکھوں افغانیوں کو مروانے اور بے گھر کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ تو خیر شد و مد سے اس مغالطے کی تشہیر جاری رکھیں گے، مگر اصل تاریخ یہی ہے جو اوپربیان کی گئی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان نہیں بلکہ ان کا غلام رہا ہے۔


پھر بھی اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے اور ان کا غلام نہیں، تو اس دعوے کو سچ کرنے کے لئے ہمیں ڈھائی ہزار سال کی تاریخ تبدیل کرنی ہو گی۔ تاریخ یقیناً بہت کڑوی ہوتی ہے لیکن جھوٹ نہی بولتی۔ افغانستان کو اگر اس کی تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو بہت مختلف نظر آئے گا۔

 

تحریر شاہد خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں