اہم خٻراں

اتوار، 12 اپریل، 2020

خطہ پنجاب دی اک تاریخ



جس وقت ملتان اس خطے کا قدیم شہر تھا تب عباسی ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے قریشی حجاز میں شتر بانی کرتے تھے بلوچ کردستان سے نکالے نہیں گئے تھے پٹھان، سڈوزئی، گوپنگ افغانستان میں قندھار پار رہتے تھے اور سمیجے دھریجے کوریجے جو کہ ❞سندھی ہندو کراڑ❝ تھے وہ اپنے آبائی وطن سکھر میں رہتے تھے،
 اسلام ابھی آیا نا تھا اور ملتان پر وہی ہندو چھتریہ خاندان حکومت کرتے تھے جنکے چاچے تائے ممیر پھپھیر لاہور بیکانیر اجودھیا اور جموں،جیسلمیر ،جہلم اور کشمیر پر حکومت کرتے تھے اور یہاں وہی قومیں آباد تھی جو لاہور جہلم لدھیانہ انبالہ کشمیر اور راجستھان میں آباد تھیں اور یہاں وہی قدیم سنسکرت کے غلبے والی ❞ہندوی❝ بولی جاتی تھی جو جہلم لاہور لدھیانہ اجمیر اور گجرات تک معمولی فرق کے ساتھ بولی جاتی تھی، اس خطے کی قدیم تاریخ کا قریشی، بلوچی، پشتون، عباسی، دھریجے، سمیجے ،کوریجے سے کوئی واسطہ ہی نہیں ملتان کی قدیم تاریخ کو صرف وہ نسلیں اون کرسکتی ہیں جو انبالہ سے پشاور اور سیالکوٹ سے سندھ تک آباد تھیں اور سندھی ہندو کراڑ نسل کا سمیجہ کوریجہ دھریجہ بھی صرف تب ملتان کی تاریخ کو اون کرسکتا ہے جب وہ سندھ سے لے کر کشمیر تک اس سارے علاقے کو ❞ایک اکائی❝ میں تسلیم کرے کیونکہ یہ ہمیشہ ایک ہی اکائی میں تھا ہندو دور میں یہ سب علاقے اس طرح تقسیم نا تھے جس طرح مسلمانوں نے آکر ان علاقوں کو تقسیم کیا، ہندو اپنی اپنی چھوٹی بڑی ریاستوں پر حکومت ضرور کرتے تھے لیکن اس تمام علاقے جس میں شملہ چمبہ، جموں، کشمیر، پنجاب راجستھان، بھارتی پنجاب، اور سندھ شامل ہے کو ایک مشترکہ اکائی میں دیکھتے تھے تبھی تو راجہ داہر کوئی سندھی نہیں بلکہ کشمیری برہمن تھا، اتنے بڑے مُلک میں مختلف علاقے میں بسنے والے لوگوں کو علاقے کی نسبت سے مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا جیسے مالوے والوں کو مالوائی، دوآبے والوں کو دوآبی، بار والوں بار کی نشبت سے تو پوٹھوہار والوں پہاڑی نسبت سے اسی طرح ملتان طرف کے لوگوں کو ملتانی نسبت سے پہچانا جاتا تھا پنجاب جتنے علاقے پر دو سو سے زیادہ چھوٹے بڑے راجاؤں کی حکومت ہوتی تھی سندھ 
جتنے علاقے پر پچاس سے زیادہ چھوٹے بڑے راجاؤں کی حکومت ہوتی تھی، ہندوستان جس جس طرح سے مسلمانوں کے ہاتھ میں گیا اُس اُس طرح سے اس علاقے کی قدیم حیثیت معدوم ہوتی گئی بھلا اُچ شریف کا ملتان کی قبل از اسلام کی تاریخ سے کیا تعلق؟ لیکن آج آپ کو اُچ شریف ایسے بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے جیسے بابا آدمؑ کا پہلا گھر یہیں بنا تھا بھئی اُچ شریف تو تب اُچ شریف بنا نا جب یہاں مسلمان آئے اور انکے بابوں کی مزاروں درگاہوں سے یہ مشہور ہوگیا، بھئی قلعہ دیرآور کا موجودہ ملتان یا بہاولپور میں بس رہے قریشی، عباسی، سڈوزئی، گوپنگ، بلوچی سے کیا تعلق؟ وہ تو اسلام سے کئی صدیاں قبل جیسلمیر کے ہندو راجپوت راجہ نے بنوایا تھا، تو بات یہ ہے کہ ملتان کی تاریخ کو اگر کوئی بندہ اون کرسکتا ہے تو وہ وہی کرسکتا ہے جو قبل از اسلام کی ہندو نسلوں سے مسلمان ہوا ہے کردستان، افغانستان، عرب، بخارا سے آنے والے مہاجر و پناہگیروں کا اس تاریخ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں اور یہ وہ گرگٹ ہیں جنہوں نے پتا نہیں کتنی پہچانیں بدلی ہیں کردستان، و عرب، افغانستان کے بھگوڑے آج اس علاقے میں خود کو ❞فاتح❝ کہتے ہیں انکو چاہئے اپنی تاریخ پڑھیں بلوچ پنجاب کے فاتح نہیں بلکہ کردستان سے جلا وطن کیے گئے قبائل تھے جنہوں نے مغلوں وغیرہ کو فوجی حمایت کا یقین دلوا کر پنجاب میں پہلے مغلوں تو بعد میں انگریزوں سے زمینیں لیں،
 سڈوزئی اور گوپنگ پنجاب کے قدیم واسی نہیں افغانستان سے جلا وطن کیے گئے قبائل تھے یقین نہیں آتا تو ابدالی کا بچپن اور جوانی اور پھر اسکے ایرانی حکمران نادر شاہ کا سپاہی بننے اور نادر شاہ کی موت کے بعد قدیم ہندو شاہی اور ایرانی علاقوں پر تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ❞افغانستان❝ نامی ملک کے بننے کا واقعہ پڑھ لیں، پھر آگے چل کر نادر خان سڈوزئی نے کس طرح رنجیت سنگھ کو اپنا ❞بھائی❝ کہہ کر نا صرف اس سے پگڑی بٹائی بلکہ ❞کوہِ نور❝ بھی اپنے ہاتھ سے رنجیت سنگھ کو دیا وہ بھی ضرور پڑھیں، اور قریشیوں کو شکر کرنا چاہئے کہ برصغیر کے لوگ عقیدت کے مارے ہوئے ہیں خدانخواستہ یہاں کے لوگ افغانوں یا موجودہ عربوں جیسے ہوتے تو ملتان کے قریشی شاید اس وقت اپنے قبیلوں کے نام بدل کر کہیں گم نام زندگی گزار رہے ہوتے، اس لیے پنجاب کی عقیدت مند عوام کو بے وقوف بنانا بند کردیں، اب عباسیوں کی طرف آئیں تو عباسی وہی قبیلہ تھا جسے منگولوں نے عراق میں نیست و نابود کردیا تھا اور منگول قتل عام سے بچ کر عاق سے کچھ ❞غیر نامور❝ لوگ بھاگ کر ہندوستان آگئے اور دہلی کے ترکی النسل مسلمان حکمرانوں کو خود کے خاندانِ رسولﷺ سے ہونے کے جھوٹے سچے قصے سنا کر ہندوستان میں کئی جگہ پر چھوٹی چھوٹی جاگیریں گزر اوقات کے لیے لے لیں بہاولپور جسکا اتنا ہوا بنایا ہوا ہے کا انیس سو ایک میں صرف بیس میل رقبہ قابل کاشت اور آباد تھا باقی سب علاقہ اجاڑ بیابان اور چولستان کے ریگستان پر مبنی تھا جو کہ راجستھان کے گریٹ انڈین ڈیزرٹ کا حصہ ہے،

 یہاں سکھر سے نکالے گئے داؤد خان نے دہلی کے مسلمان حکمرانوں کو خود کے حضرت عباسؓ کی نسل سے ہونے کے واسطے دے کر اس اجاڑ بیابان میں اپنے سکھر سے نکالے گئے قبیلے کے لیے رہنے کے لیے پنجاب میں جگہ حاصل کی تھی، اور ایک بات جب پنجاب اور سندھ اور دہلی پر حکومت ہی غیر ہندوستانی قبضہ گیروں کی تھی تو اس دور میں کیا گیا کوئی بھی فیصلہ کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ میرے خیال سے کوئی بھی نہیں، اس تحریر سے کئی لوگوں کو آگ لگے گی لیکن یہ تحریر اس تعصب کی نسبت بہت مہذب اور حقائق پر مبنی ہے جو تعصب اس ملک میں بہتر سال سے پشتونوں، بلوچیوں، قریشیوں، عباسیوں، سندھیوں کی طرف سے کبھی کسی تو کبھی کسی پہچان کے پردے میں چھپ کر پنجاب اور پنجابیوں کے بارے میں پھیلایا جا رہا ہے،۔۔۔

لکھت: رانا علی

1 تبصرہ: