ٹیکنالوجی، آئ ٹی، ٹیلی مواصلات، کورئیر سروسز اور ٹرانسپورٹ کے ایس جدید دور میں جہاں فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک نے 2016ء میں اپنے صوبوں کی تعداد 22 سے کم کر کے 13 کر دی، تاکہ بیوروکریسی کے نظام کو سادہ اور حکومتی اخراجات کو کم کیا جا سکے۔ کینیڈا جیسے بڑے ملک کے صرف 13 صوبے ہیں حالانکہ دنیا کا بلحاظ رقبہ دوسرا بڑا ملک ہے۔
اور جہاں انڈیا کی ایک ریاست "یوپی" کی آبادی پاکستان کی ٹوٹل آبادی کے برابر ہے۔ وہاں سارے پاکستان میں انتظامی اور سیکیورٹی صورتحال کے لحاظ سے کچھ بہتر صوبہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات کی جاتی ہے، اور اس کیلۓ کبھی ذیادہ آبادی کا بہانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی صوبائی دارالحکومت سے فاصلے کا۔
اور جہاں انڈیا کی ایک ریاست "یوپی" کی آبادی پاکستان کی ٹوٹل آبادی کے برابر ہے۔ وہاں سارے پاکستان میں انتظامی اور سیکیورٹی صورتحال کے لحاظ سے کچھ بہتر صوبہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات کی جاتی ہے، اور اس کیلۓ کبھی ذیادہ آبادی کا بہانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی صوبائی دارالحکومت سے فاصلے کا۔
ذیل میں ان پوائنٹس/سوالات/بہانوں کے جوابات ہیں، جو پاکستان، پنجاب اور پنجابی قوم کو مزید تقسیم کرنے کے لئے اٹھائے جاتے ہیں:
محرومی اور نئے صوبے:
محرومیوں کی بات کرتے ہو تو ہمارے پنجاب کے بہاولپور، ملتان، اور ڈی جی خان ڈویژنز اپنی صوبائی سرحد کے ساتھ لگنے والے شمالی/اندرون سندھ کے علاقوں سے ایک، دو نہیں کم از کم دس گنا بہتر ہیں۔ ان سے دو ، چار نہیں چالیس، پچاس برس آگے ہیں۔ یہاں فارم ٹو مارکیٹ سڑکیں ہی نہیں میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بھی ہیں۔ یہاں میٹرو چلتی ہے، جس کا خیبرپختونخوا والے ابھی تک خواب ہی دیکھتے ہیں، سندھ اور بلوچستان والوں کے خوابوں سے بھی دور ہے۔ کیا آپ نے کبھی بہاولپور کی سڑکیں دیکھی ہیں، مظفر گڑھ کا طیب اردگان ہسپتال دیکھا ہے، راجن پور کا ڈی ایچ کیو دیکھا ہے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں سندھ سے لوگ اپنا علا ج کروانے آتے ہیں۔ اگر محرومی کی بنیاد پر ہی صوبہ بنانا ہے تو پھر شمالی/اندرون سندھ کو الگ صوبہ بناو، فاٹا کو صوبے کا درجہ دو، جہاں ابھی تک آئین اور قانون تو ایک طرف رہے، بنیادی سہولتوں تک کا فقدان ہے۔
دارالحکومت سے دوری کا اصول اور نئے صوبے:
کہتے ہیں کہ ملتان، بہاولپور اور ڈیرے سے لاہور آنا مشکل ہے۔ تو کیا سندھ میں کراچی اور خیبرپختونخواہ میں پشاور جانا آسان ہے؟ ملتان سے لاہور آنے کے لئے اب موٹروے موجود ہے اور سفر محض تین (3) گھنٹوں کا ہے۔ اور کیا آپ علم ہے کہ چاغی اور گوادرسے کوئٹہ کا سفر کتنا ہے؟ بعض مقامات سے تو آپ ایک دن میں دارالحکومت پہنچ ہی نہیں سکتے مگر تقسیم کی بات صرف پنجاب کی، واہ
ٹیکنالوجی تے آئ ٹی دے ایس جدید دور وچ جدوں تقریبا سارے سرکاری تے غیر سرکاری محکمے دی ویب سائٹس موجود نیں، تے ذیادہ کم انٹرنیٹ دے ذریعے آسانی نال ہو سکدے نیں، جویں کہ آن لائن نوکری دی درخواست، ڈگری دی تصدیق، FIR وغیرہ. لہور ہائی کورٹ بینچ پہلے ای ملتان تے بہاولپور وچ کم کر ریا اے۔ ملتان تے بہاولپور لئ الگ ایڈیشنل چیف سیکٹری (ACS) تے ایڈیشنل آئ جی (AIG) دی نئ پوسٹس بنان دا مقصد تنخواہ، مراعات، پروٹوکول تے اقربا پروری تے ذاتی سیاسی فوائد توں علاوہ کُج نہیں۔
ٹیکنالوجی تے آئ ٹی دے ایس جدید دور وچ جدوں تقریبا سارے سرکاری تے غیر سرکاری محکمے دی ویب سائٹس موجود نیں، تے ذیادہ کم انٹرنیٹ دے ذریعے آسانی نال ہو سکدے نیں، جویں کہ آن لائن نوکری دی درخواست، ڈگری دی تصدیق، FIR وغیرہ. لہور ہائی کورٹ بینچ پہلے ای ملتان تے بہاولپور وچ کم کر ریا اے۔ ملتان تے بہاولپور لئ الگ ایڈیشنل چیف سیکٹری (ACS) تے ایڈیشنل آئ جی (AIG) دی نئ پوسٹس بنان دا مقصد تنخواہ، مراعات، پروٹوکول تے اقربا پروری تے ذاتی سیاسی فوائد توں علاوہ کُج نہیں۔
بہاولپور ریاست اور نئے صوبے:
سوال یہ ہے کہ کیا صرف بہاولپور ہی علیحدہ ریاست تھی؟ اس کی ہمسائیگی میں خیرپور بھی ریاست تھی جو سندھ میں ضم ہوئی، قلات، لسبیلہ اور خاران کو بلوچستان میں شامل کیا گیا۔ خیبرپختونخوا میں سوات، چترال اور دِیر کی ریاستیں تھیں جو اب ضلعے ہیں۔ صرف بہاولپور کی بحالی کا شور کیوں ہے؟ پھر سب ریاستوں کو الگ صوبے بنا دینے چاہیے.
پاکستان میں پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس کا رقبہ 1947ء کے بعد کم ہوا۔ جبکہ باقی تینوں (3) صوبوں کا زمینی رقبہ ذیادہ ہوا۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ اور سیاسی پارٹیاں پنجاب کو ظالم اور غاصب کہتی ہیں۔ یہ ایسا صرف پاکستانی فیڈریشن کو بلیک میل کر کے ذیادہ سیاسی اور معاشی فائدہ حاصل کرنے اور پنجاب کے بغض اور حسد میں کرتے ہیں۔ ذیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے سادہ لؤ پنجابی ان بلیک میلز اور حاسدین کی باتوں میں آ جاتے ہیں.
پاکستان میں پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جس کا رقبہ 1947ء کے بعد کم ہوا۔ جبکہ باقی تینوں (3) صوبوں کا زمینی رقبہ ذیادہ ہوا۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ اور سیاسی پارٹیاں پنجاب کو ظالم اور غاصب کہتی ہیں۔ یہ ایسا صرف پاکستانی فیڈریشن کو بلیک میل کر کے ذیادہ سیاسی اور معاشی فائدہ حاصل کرنے اور پنجاب کے بغض اور حسد میں کرتے ہیں۔ ذیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے سادہ لؤ پنجابی ان بلیک میلز اور حاسدین کی باتوں میں آ جاتے ہیں.
لسانی پہلو اور نئے صوبے:
جے لسانی پہلو دا تجزیہ کیتا جائے. تاں لسانیات دی تعریف مطابق "اگر دو انساناں نوں آپس وچ گل بات کردیاں کسے رابطہ زبان یا مترجم دی لوڑ نہ پَوے تے اوہناں دی زبان اِک ہی تصور کیتی جاوے گی."
عظیم پنجابی صوفی شاعراں بابا فرید، شاہ حسین، سُلطان باہُو، بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید تے میاں محمد بخش کوں سارا پنجاب پڑھدا وی ھے گاندا وی ھے۔ ایہو پنجابی زبان دی سانجھ ھے۔
![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhDKhQZLmCCzHD66EeCpjnuTweAfzd6jljSrHALSCRJabWTlLu3lHUbZbXJFVsQo8GX-7qjXFmPrMvGD8fphA3qG8nvBQp_9s0SU9QOn0YTLsK2SQiR3hDv3bdVavUsgov_HmTBISiVOLM/w640-h360/Spiritual+leaders+of+Punjab.png)
پنجابی زبان دی اسی وسعت دی وجہ تو اٹک توں رحیم یار خان تک دے لوکاں نوں آپسی رابطے لئی کسے رابطہ زبان یا مترجم دی لوڑ نہیں پیندی. جدو کہ سندھ، بلوچستان تے خیبرپختونخوا وچ انج دی لسانی ایکتا موجود نہی۔
دنیا دِیاں ساریاں وڈیاں زباناں دے مختلف لہجے نیں، انج ای پنجابی زبان دے وی مختلف لہجے نیں۔ جویں کہ ماجھی، ملتانْی، ریاستی/بہاولپوری، ہندکو، پوٹھوہاری، جھنگوچی، ڈیرہ والی، پشوری، چھاچھی، دوآبی، پہاڑی، روہی، دھنی، تے جٹکی"۔ پنجابی زبان دے سارے لہجے آپس وچ بھرویں سانجھ رکھدے نیں، تے گرائمر وی سانجھی اے۔ ہر لہجے دی خوبصورتی تے اہمیت اپنا پورا وجود رکھدی اے۔
سو زبان دے وَکھریویں دا ایشو تاں اس خطے دی تاریخ تے لسانیات دے مطابق اُکّا ہی بے بنیاد تے من گھڑت اے.
کیا الگ صوبے کا مطالبہ صرف پنجاب میں ہے؟
کہتے ہیں کہ پنجاب میں ایک الگ صوبے کا مطالبہ موجود ہے تو پھر اس طرح سندھ میں بھی مہاجر صوبے کا مطالبہ ہے بلکہ یہ حق سب سے پہلے تھرپارکر کے عوام کا ہے کہ انہیں کراچی کی حاکمیت سے نجات ملے، خیبرپختونخوا میں بھی ہزارہ صوبے کامطالبہ ہے جس کے لئے اب تک ڈیڑھ درجن لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ فاٹا کو بھی الگ صوبہ بنانے کا کہا جاتا رہا ہے۔ سندھ میں کہا جاتا ہے کہ سندھ کی دھرتی ہماری ہے اورہم اپنی ماں کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، کیا یہ سہولت پنجابیوں کی غیرت دیتی ہے کہ ان کی ماں کے ٹوٹے کئے جائیں اور بار بار کئے جائیں.
یہ افواہ بھی ہے کہ کچھ طاقتور لوگ یہ منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں کہ نیا صوبہ بننے کے بعد وہاں سے پنجابی کے ماجھی اور دوآبی وغیرہ لہجے بولنے والوں کو "آبادکار" کھ کر، لسانی فساد کر آ کے بھگا دِیا جائے گا۔ ایسی افواہوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgLPbqzAgvN9BAsq9L9rxJSaVnqt1EbfQl1JBxi7ngJipfK8hC_TRhOWscnoho2fITf8hH_pEqdm6eIuPhMknDnRZ-8c86PbUebr5rWmTGjIqpgkrcRZRT7ydZjcCgjJoPbm0_CZ2uZ1AU/s400/90026091_4289151654444002_3937498774271688704_n.jpg)
یہ افواہ بھی ہے کہ کچھ طاقتور لوگ یہ منصوبہ بھی بنائے بیٹھے ہیں کہ نیا صوبہ بننے کے بعد وہاں سے پنجابی کے ماجھی اور دوآبی وغیرہ لہجے بولنے والوں کو "آبادکار" کھ کر، لسانی فساد کر آ کے بھگا دِیا جائے گا۔ ایسی افواہوں کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgLPbqzAgvN9BAsq9L9rxJSaVnqt1EbfQl1JBxi7ngJipfK8hC_TRhOWscnoho2fITf8hH_pEqdm6eIuPhMknDnRZ-8c86PbUebr5rWmTGjIqpgkrcRZRT7ydZjcCgjJoPbm0_CZ2uZ1AU/s400/90026091_4289151654444002_3937498774271688704_n.jpg)
بڑی آبادی کا انتظام اور نئے صوبے:
کہتے ہیں کہ انتظامی طور پر اتنی بڑی آبادی کا انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ہمارے ساتھ ہی بھارت ہے جہاں اترپردیش کی آبادی، پاکستانی پنجاب کی آبادی سے دوگنی ہے اور اس کے بعد مہاراشٹر سمیت دو صوبے ہمارے پنجاب کے برابر آبادی کے ہیں۔
اگر چھوٹے صوبے ترقی کرتے ہوتے تو سندھ اور کے پی پنجاب سے ذیادہ ترقی کر جاتے، اور تو اور فاٹا علیحدہ صوبہ بنایا جاتا۔ یہ کیا منطق ہے کہ فاٹا کی سات ایجنسیاں کے پی کے میں ضم کرنے سے ترقی ہوتی ہے لیکن پنجاب جو پہلے ہی باقی صوبوں کی نسبت ترقی یافتہ ہے وہ تقسیم کرنے سے ترقی یافتہ بنتا ہے۔ یہ سراسر جعلسازی اور سیاسی مفاد کے لیے ہے جہاں جاگیردار اور افسر شاہی کھل کر کھیلنا چاہتے ہیں. جو ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ ہے۔
حیرت ہے کہ آپ لوگ ایک ایسا بلدیاتی نظام نہیں لاتے جس سے اختیارات نچلی سطح تک چلے جائیں۔ ویسے بھی ہمارے پنجاب بشمول ملتان، بہاولپوراور ڈیرہ انتظامی طور پر سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان سے بہت بہتر ہے۔
انڈین پنجاب اور پاکستانی پنجاب میں فرق:
پاکستان میں نۓ صوبوں پر بات کرتے ہوۓ اکثر انڈین پنجاب کی مثال دی جاتی ہے۔ لیکن شائد وہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ 1947ء سے پہلے غیر مسلم پنجاییوں سے انڈین سیاستدانوں نیں انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کیلۓ کچھ وعدے کیۓ تھے، جو 1947ء کے بعد پورے نہی کیے گیۓ۔ اس پر انڈین سیاستدانوں کو ڈر تھا کہ کہیں انڈین پنجاب میں انڈیا کے خلاف بغاوت نہ ہو جاۓ۔ اس لۓ انڈین پنجابیوں کی طاقت کو کم کرنے کیلۓ انڈین پنجاب کو تین (3) حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی انڈین پنجاب میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔
جبکہ پاکستانی پنجاب میں ایسا کوئی مسئلہ نہی، پاکستانی پنجابیوں نیں ہمیشہ پاکستان کیلۓ قربانی دی ہے اور اب بھی ہمیشہ قربانی دینے کیلۓ تیار رہتے ہیں۔ اس لۓ پاکستانی پنجاب کو تقسیم کرنے کیلۓ انکی یہ لوجک بھی فیل ہو جاتی ہے۔
بہارت کے سیاسی مفاد اور پاکستانی پنجاب:
پنجاب کی کسی بھی صورت میں تقسیم پنجاب میں پانی کا مسئلہ کھڑا کر دے گی اور پنجاب کی داخلی ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنا بہارت کے سیاسی مفاد میں ہے. مضبوط پاکستانی پنجاب #کشمیر کاز کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ بہارت کی لڑائی دوسرے صوبوں سے نہیں ہے, اگر ہے تو صرف پنجاب سے۔
پنجاب اور پاکستان:
پنجاب نے پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ قربانی دی، حتیٰ کہ جب دوقومی نظرئیے پر مدینہ کے بعد تاریخ کی دوسری اسلامی نظریاتی ریاست وجود میں آ رہی تھی تو پنجاب نے اپنے بدن پر چھری چلوائی، اور دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے لہولہان ہو گیا۔ دلوں اور خون کے رشتے تک کٹ کے رہ گئے۔ ایک اندازے کے مطابق، 1947ء کی پنجاب کی تقسیم میں تقریبا 20 لاکھ پنجابیوں نیں اپنی جانوں کی قربان دی، اور 2 کروڑ پنجابیوں کے گھر بار، مال و دولت اور زمینیں لوٹ لی گئیں۔ ان سب قربانیوں کے باوجود پنجاب اور پنجابی قوم کو کوئی داد نہیں ملی، جب بھی ملی گالی ہی ملی۔
![](https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEisvv92vNHmFoTu7fyM7rKk4rJqQGpwGfEVDmAB5JaOPH2CmcxS94tSlBk7sAqSWDQwPCTcJ7HPuhjmdid_WydtZNJrgO3aaxT59Fk-cz1CqaNKpy1oUiiQlrcwzcI0eOnG7IXMyQLn9dA/s640/punjab+di+Pakistan+wasty+qurbani+33333333.png)
اور اب ایک مرتبہ پھر وہ تمام جماعتیں جن کی ہوم گراونڈ پنجاب بھی نہیں ہے۔ وہ اس صوبے کو ایک مرتبہ پھر تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ کیوں؟ کیا اس وجہ سے کہ پنجاب نے پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے دل کے دروازے سب کے لئے کھلے رکھے؟ وہ سیاسی رہنما جو تخت لاہور کے طعنے دیتے ہیں، ان میں سے کس کا گھر لاہور میں نہیں ہے؟ مگر شائد پنجاب اورلاہور کے نمک میں وفا ہی نہیں ہے۔ افسوس
بہاولپور، ملتان، اور ڈی جی خان ڈویژنز کے سیاستدان اور وہاں کی کپاس اور ملکی معیشت میں حصے کا ریٹرن:
کہتے ہیں کہ یہاں کی کپاس کو ملکی معیشت میں حصے کا ریٹرن نہیں ملتا، جبکہ حقیقت میں ان 3 ڈویژنوں کی بتیس فیصد آبادی کو اس کے شئیر سے زیادہ مل رہا ہے۔
کارپوریٹ سیکڑ دا مرکز لاہور، شیخوپورہ، فیصل آباد، سیالکوٹ تے گُوجرانوالہ نیں۔ پنجاب چ زرمبادلہ دا اکثریتی حصہ ایناں شہراں دا ہی ہے۔ ایتھے دے فُٹبال ورلڈکپ چ وی استمال ہوندے نیں، ٹیکسٹائل، بجلی، سیمنٹ، لون ( salt)، طبی، تے چمڑے وغیرہ دی مصنوعات برآمد ہوندیاں نیں۔ جہلم، گوجر خان، منڈی بہاولدین، گُجرات، سرگودہا، جھنگ تے جی ٹی روڈ دے پنجابی اکثریتی طور تے بیرون مُلک بسلسلہ روزگار مقیم نے تے فارن کرنسی نوں پاکستان لیاون وچ بہت وڈا رول پنجاب دے ایس علاقے دا ہی ہے۔ ملتان ڈویژن تے بہاولپور ڈویژن دا زرمبادلہ چ رول تے باقی پنجاب دا زرمبادلہ چ رول بہت الگ ہے۔ فیر وی کمائ توں ودھ اوس علاقے چ پیسہ استمعال ہوندا ہے۔ آج اوتھے میٹرو تے صحت دی اوہ سہولیات نے جنیاں دا سندھی، بلوچی تے پشتون ہجے خواب ہی ویکھ سکدے نیں۔
دوسری طرف دیکھیں تو کیا یہ بات حقیقت نہیں، کہ ان علاقوں کے سیاستدانوں نے پورے ملک پر حکمرانی کی ہے۔ وہ شاہ محمود قریشی ہو، فاروق لغاری، یوسف رضا گیلانی، صابزادا فاروق علی، سید فخر امام، محمد لطیف کھوسہ، آصف سعید کھوسہ، ذوالفقار علی کھوسہ، دوست محمد کھوسہ، خسرو بختیار یا عثمان بزدار۔ کیا ان سے پوچھا نہیں جانا چاہئے کہ ان علاقوں کی کیا خدمت کی ہے؟ یہ جاگیردار، نئے صوبے کی آڑ میں اپنے لئے صرف ایک محفوظ راجدھانی بنانا چاہتے ہیں. چاہے ملک کا خرچہ جتنا بڑھ جائے۔
ہمارے خوبصورت پنجاب کی گورننس میں اور ذیادہ بہتری کے لیے کچھ تجاویز:
نئے اضلاع بنائیں،
حلقے مختصر کریں،
صوبے کی بارڈر فورس بنائیں،
زون کے حساب سے نوکریاں دیں،
ڈویژن سسٹم کو صحیح کریں (مطلب قریبی اضلاع ڈویژن میں رکھیں)،
مضبوط مقامی بااختیار ضلعی حکومت بنائیں۔
پنجاب کی سالمیت، اصل میں پاکستان کی سالمیت ہے، اسلیۓ پنجاب اور پنجابی قوم کی مزید تقسیم نامنظور۔
سیاستدانوں اور حکمرانوں سے اپیل ہے، کہ عوام کو مزید تقسیم کرنے کے بجانے اپنی اصلاح کریں اور گورننس میں بہتری لائیں۔
اور عوام سے اپیل ہے، کہ برائے مہربانی، اپنے ملک اور صوبے کی بہتری اور خوشحالی کیلیۓ امن، بھائی چارے اور اتفاق سے رہیں۔ شکریہ
جیوے پنجاب،
وسے پیارا پاکستان 🇵🇰
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں